نرمی اور تحمل مزاجی کوئی بزدلی کی بات نہیں‘ یہ زندگی کا ایک اہم اصول ہے جو خود خالق فطرت نے تمام مخلوقات کو سکھایا ہے۔ عربی کاایک مثل ہے: ’’السماح دباح‘‘ یعنی معاملات میں نرمی اور وسعت ظرف کا طریقہ ہمیشہ مفید ہوتا ہے۔ انسان نے ہزاروں برس کے دوران دونوں قسم کا تجربہ کیا۔ نرم رویہ کا بھی اور سخت رویہ کا بھی۔ آخر کار تجربات سے ثابت ہوا کہ سخت رویہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں نرم رویہ ایسا نتیجہ پیدا کرتا ہے جو آپ کیلئے مفید ہو۔ریلوے اسٹیشن پر دو آدمی چل رہے تھے۔ ایک آدمی آگے تھا۔ دوسرا آدمی پیچھے۔ پیچھے والے کے ہاتھ میں ایک بڑا بکس تھا۔ تیزی سےآگے بڑھتے ہوئے اس کا بکس اگلے آدمی کے پاؤں سے ٹکرا گیا۔ وہ پلیٹ فارم پر گر پڑا۔ پیچھے والا آدمی فوراً ٹھہرگیا اور شرمندگی کے ساتھ بولا کہ مجھے معاف کیجئے‘ آگے والے آدمی نے اس کو سنا تو وہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس نے کہا کوئی حرج نہیں اور پھر دونوں اٹھ کر اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کی کوئی ناخوشگوار صورت پیش آئے تو دونوں بگڑجائیں‘ ایک کہے کہ تم اندھے ہو‘ دوسرا کہے کہ تم بدتمیز ہو‘ تم کو بولنا نہیں آتا وغیرہ۔ اگر ایسے موقع پردونوں اس قسم کی بولی بولنے لگیں تو بات بڑھے گی۔ یہاں تک کہ دونوں لڑپڑیں گے۔ پہلے اگر ان کے جسم پرمٹی لگ گئی تھی تو اب ان کے جسم سےخون بہےگا۔ پہلے اگر ان کے کپڑے پھٹے تھے تو اب ان کی ہڈیاں توڑی جائیں گی۔ خواہ گھریلو زندگی کامعاملہ ہو یا گھر کے باہر کا معاملہ ہو۔ خواہ ایک قوم کے افراد کا جھگڑا ہو یا دو قوموں کے افراد کا جھگڑا۔ ہرجگہ نرم روی اور عالی ظرفی سے مسئلے ختم ہوتے ہیں اور اس کے برعکس رویہ اختیار کرنے سے مسئلے اور بڑھ جاتے ہیں۔ پہلا طریقہ آگ کو بجھاتا ہے اور دوسرا طریقہ آگ کو مزید بھڑکا دیتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں